میرے لب پر کوئی دعا ہی نہیں
میرے لب پر کوئی دعا ہی نہیں
اس کرم کی کچھ انتہا ہی نہیں
کشتئ اعتبار توڑ کے دیکھ
کہ خدا بھی ہے نا خدا ہی نہیں
میری ہستی گواہ ہے کہ مجھے
تو کسی وقت بھولتا ہی نہیں
اب اسے ناامید کیوں کہیے
دل کو توفیق مدعا ہی نہیں
غم میں لذت کہاں کہ دل نہ رہا
ہائے وہ حسرت آشنا ہی نہیں
وہی تو ہے وہی تری محفل
ایک فانیؔ مبتلا ہی نہیں
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |