میرے نالوں سے تہہ و بالا ہوئی اکثر زمیں
میرے نالوں سے تہہ و بالا ہوئی اکثر زمیں
زیر پا آیا فلک اور بارہا سر پر زمیں
ہے دیار ماہرو کا بس یہی قاصد نشاں
آسماں تجھ کو نظر آئے گی واں کی سر زمیں
کس طرف جاؤں کہ ہو ان دو بلاؤں سے نجات
آسماں گھر گھر یہی ہے اور یہی گھر گھر زمیں
باری باری یہ مجھے پیسیں برنگ آسیا
آسماں دن بھر رہے گردش میں تو شب بھر زمیں
مثل خورشید آسماں جلتا ہے آہ گرم سے
کانپتی ہے ٹھنڈی سانسوں سے مری تھر تھر زمیں
جس جگہ ہیں دفن قاتل تیری مژگاں کے شہید
واں عوض سبزی کے پیدا کرتی ہے نشتر زمیں
سیکڑوں اس میں گئے محبوب جائے رشک ہے
رکھتی ہے آغوش میں کیا کیا پری پیکر زمیں
آتش فرقت سے عالم کورۂ آتش ہوا
آسماں ہے دود ہم اخگر میں اور مجمر زمیں
عشق خال یار نے ایسا کیا زار و نحیف
بیٹھے رہنے کو مرے کافی ہے اب تل بھر زمیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |