میرے گھر میں زناخی آئی کب
میرے گھر میں زناخی آئی کب
میں نگوڑی بھلا نہائی کب
صبر میرا سمیٹتی ہے وہ
شب کو بولی تھی چارپائی کب
کل زناخی تھی میرے پاس کدھر
اوڑھ بیٹھی تھی میں رضائی کب
لڑ کے مدت سے وہ گئی ہے روٹھ
میری اس کی ہوئی صفائی کب
وہ نبختی تو اپنے گھر میں نہ تھی
پاس اس کے گئی تھی دائی کب
دوڑی لینے کو میں اسے کس دم
پانوں میں میرے موچ آئی کب
کھانا کھایا تھا میں نے اس نے کہاں
اور منگوائی تھی ملائی کب
کی تھی شب میں نے کس جگہ کنگھی
آرسی اس نے تھی دکھائی کب
ہرگز آتی نہیں ہے سانچ کو آنچ
پیش جاوے گی یہ بڑائی کب
گوندھ کر ہاتھ پانوں میں رنگیںؔ
اس نے مہندی مرے لگائی کب
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |