میں تو کچھ کہتی نہیں شوق سے سو باری چیخ
میں تو کچھ کہتی نہیں شوق سے سو باری چیخ
نام لے کر مری دائی کا ددا ماری چیخ
اڑ گئے مغز کے کیڑے تو ادھر کیوں ہے کھڑی
میری چندیا پہ کھڑی ہو کے ادھر آ ری چیخ
لے میں کہتی ہوں کہ سر پیٹ کے چونڈے کو کھسوٹ
نوچ نوچ اپنا تو منہ شوق سے کر زاری چیخ
لوگ یاں چونک اٹھے اپنے پرائے سارے
مر مٹی تو نے غضب ایسی ہی اک ماری چیخ
تس پہ مکراتی ہے مردار اری شابش ری
تیرے منہ سے ابھی نکلی ہی نہیں ساری چیخ
ہے یہ قحبہ اسے رنگیںؔ کے حوالے کر دے
میری انا کو دوگانا میں ترے واری چیخ
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |