میں جو مر جاؤں عجب عالم رہے
میں جو مر جاؤں عجب عالم رہے
غم کو بھی مرنے کا میرے غم رہے
آرزوئے وصل میں کیا دم رہے
خون دل آ کر لبوں پر جم رہے
چوڑیوں کی ہائے وہ دل کش صدا
حشر تک یا رب مرا ماتم رہے
بے خودی ہے خود فراموشی نہیں
ہم نہیں ہیں آپ میں گر ہم رہے
جب کسی کی بے کسی یاد آ گئی
قتل میں دست ستم گر تھم رہے
سامنے سے ہٹ نہ او آئینہ رو
جب تک ان آنکھوں میں کچھ کچھ دم رہے
اف نہ کر صفدرؔ تہ تیغ ستم
گردن تسلیم واں بھی خم رہے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |