میں رو رہا ہوں جو دل کو تو بیکسی کے لئے

میں رو رہا ہوں جو دل کو تو بیکسی کے لئے
by ثاقب لکھنوی

میں رو رہا ہوں جو دل کو تو بیکسی کے لئے
وگر نہ موت تو دنیا میں ہے سبھی کے لئے

شب فراق کی روزانہ آفتیں توبہ
یہ امتحان تو ہوتا کبھی کبھی کے لئے

بہت سی عمر مٹا کر جسے بنایا تھا
مکاں وہ جل گیا تھوڑی سی روشنی کے لئے

وسیع بزم جہاں ہے تو ہو مجھے کیا کام
جگہ ملی نہ مری حسرت دلی کے لئے

یہ اور دامن قاتل ہے چھوٹ جائے گا
لہو میں جوش تو برسوں سے تھا اسی کے لئے

نہ آنکھ بند کروں میں تو کیا کروں یا رب
وہ آ رہے ہیں تماشائے جانکنی کے لئے

بلا کے مجھ کو نکالا ہے اپنی محفل سے
وہ نیکیاں نہیں اچھی ہیں جو ہو بدی کے لئے

قفس میں آج تماشائے‌‌ غم ہے قابل دید
تڑپ رہا ہوں میں صیاد کی خوشی کے لئے

تمام ہو گئے ہم اک نگاہ قاتل سے
رگیں گلے کی تڑپتی رہیں چھری کے لئے

فروغ حسن بڑھا دل کی بے نوائی سے
فقیر ہو گیا شان تونگری کے لئے

قفس میں چپ نہ ہوں تو کیا کروں کہ یہ قیدی
نہ دوستی کے لئے ہے نہ دشمنی کے لئے

تمام بزم میں چھایا ہوا ہے سناٹا
چھڑا تھا قصۂ دل ان کی دل لگی کے لئے

شکایت‌ چمن دہر کیا کروں ثاقبؔ
ہوا خلاف ہے لیکن کسی کسی کے لئے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse