میں سراپا مظہر اسم خدا واللہ ہوں
میں سراپا مظہر اسم خدا واللہ ہوں
ہم صفیرو اس چمن میں مرغ بسم اللہ ہوں
کس طرف جاؤں دکھا دو یا محمد راہ حق
یاں ہر اک گمراہ کہتا ہے میں خضر راہ ہوں
اے مسیحا تیری زلفوں کی درازی دیکھ کر
کہتی ہی عمر خضر میں گیسوۓ کوتاہ ہوں
آسماں پر بھی سیہ بختی میں ہے میرا دماغ
خال روۓ مہر ہوں داغ جبین ماہ ہوں
کہہ رہی ہے آسماں سے یار کے گھر کی زمیں
طور ہوں صحرائے ایمن ہوں تجلی گاہ ہوں
بیٹھنا کیسا ادھر آیا ادھر راہی ہوا
دن جو ہوں تو مختصر ہوں شب جو ہوں کوتاہ ہوں
اللہ اللہ کیا ہے ان کے پاؤں کی ٹھوکر کا لطف
ہے ہر اک بت کی تمنا کاش سنگ راہ ہوں
روز محشر سے وزیرؔ افزوں ہے اس کافر کا طول
اب بھی کہتی ہے شب فرقت بہت کوتاہ ہوں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |