میں نہیں کہتا کہ دنیا کو بدل کر راہ چل

میں نہیں کہتا کہ دنیا کو بدل کر راہ چل
by ثاقب لکھنوی

میں نہیں کہتا کہ دنیا کو بدل کر راہ چل
خار ہیں پیراہن گل میں سنبھل کر راہ چل

دور ہے ملک عدم اور تجھ میں دم باقی نہیں
ہو سکے تو بس یوں ہی کروٹ بدل کر راہ چل

طالب منزل ہے پھر عزلت نشینی کس لیے
رہروؤں کو دیکھ لے گھر سے نکل کر راہ چل

کوئے جاناں میں زمانہ ہو گیا روتے ہوئے
تا کجا دل کا تأسف ہاتھ مل کر راہ چل

یوں رسائی تا سحر ممکن نہیں اے دل مگر
شمع کی صورت شب غم میں پگھل کر راہ چل

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse