میں نے اب سمجھا ہے راز کائنات
میں نے اب سمجھا ہے راز کائنات
کر رہا ہوں غم سے تعمیر حیات
کس توقع پر بناؤں آشیاں
زندگی ہے اور برق حادثات
منزل غم اس قدر آساں نہ تھی
رہ گئے منہ دیکھ کر صبر و ثبات
جو محبت سے رہا ناآشنا
ہو کے رہ جاتا ہے ننگ کائنات
چھا رہی ہیں ہر طرف حیرانیاں
عقل ہے بیگانۂ راز حیات
میرے رخ پر تو نہ تھے غم کے نشاں
تم سمجھ لیتے ہو شاید دل کی بات
ہوشؔ کیا کیجے حدیث غم بیاں
کون کہہ سکتا ہے دل کی واردات
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |