میں نے جو بے کسانہ مجلس میں جان کھوئی
میں نے جو بے کسانہ مجلس میں جان کھوئی
سر پر مرے کھڑی ہو شب شمع زور روی
آتی ہے شمع شب کو آگے ترے یہ کہہ کر
منہ کی گئی جو لوئی تو کیا کرے گا کوئی
بے طاقتی سے آگے کچھ پوچھتا بھی تھا سو
رونے نے ہر گھڑی کے وہ بات ہی ڈبوئی
بلبل کی بیکلی نے شب بے دماغ رکھا
سونے دیا نہ ہم کو ظالم نہ آپ سوئی
اس ظلم پیشہ کی یہ رسم قدیم ہے گی
غیروں پہ مہربانی یاروں سے کینہःجوئی
نوبت جو ہم سے گاہے آتی ہے گفتگو کی
منہ میں زباں نہیں ہے اس بد زباں کے گوئی
اس مہ کے جلوے سے کچھ تا میرؔ یاد دیوے
اب کے گھروں میں ہم نے سب چاندنی ہے بوئی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |