میں چپ کم رہا اور رویا زیادہ
میں چپ کم رہا اور رویا زیادہ
یقیناً زمیں کم ہے دریا زیادہ
شب وصل مرغ سحر یاد رکھنا
زباں کاٹ لوں گا جو رویا زیادہ
میں نازک مزاجی سے واقف ہوں قاصد
اسی وجہ خط میں نہ لکھا زیادہ
دو بوسے لئے اس نے دو گالیاں دیں
نہ لینا زیادہ نہ دینا زیادہ
وہ سیر چمن کے لئے آ رہا ہے
اکڑنا نہ شمشاد اتنا زیادہ
وہ اتنا ہی بنتا ہے حرص مجسم
خدا جس کو دیتا ہے جتنا زیادہ
عمل پر مجھے اعتماد اپنے کم ہے
خدا کے کرم پر بھروسہ زیادہ
جو آنکھیں ترے خاک در سے ہیں روشن
ملایا ہے شاید ممیرا زیادہ
مجھے الفت زلف جب سے ہے پرویںؔ
بتاتے ہیں وہ جوش سودا زیادہ
This work is in the public domain in the United States but it may not be in other jurisdictions. See Copyright.
| |