مے ہو ساغر میں کہ خوں رات گزر جائے گی

مے ہو ساغر میں کہ خوں رات گزر جائے گی
by عابد علی عابد

مے ہو ساغر میں کہ خوں رات گزر جائے گی
دل کو غم ہو کہ سکوں رات گزر جائے گی

دیکھنا یہ ہے کہ انداز سحر کیا ہوں گے
یوں تو ارباب جنوں رات گزر جائے گی

نہ رکا ہے نہ رکے قافلۂ لیل و نہار
رات کم ہو کہ فزوں رات گزر جائے گی

میں ترا محرم اسرار ہوں اے صبح بہار
جا کے پھولوں سے کہوں رات گزر جائے گی

مژدۂ صبح مبارک تمہیں اے دیدہ ورو
میں جیوں یا نہ جیوں رات گزر جائے گی

رات بھر میں نے سجائے سر مژگاں تارے
مجھ کو تھا وہم کہ یوں رات گزر جائے گی

صبح اٹھ کر تجھے رہ رو سے لپٹنا ہوگا
رہبر تیرہ دروں رات گزر جائے گی

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse