نئی تہذیب سے ساقی نے ایسی گرم جوشی کی
نئی تہذیب سے ساقی نے ایسی گرم جوشی کی
کہ آخر مسلموں میں روح پھونکی بادہ نوشی کی
تمہاری پالسی کا حال کچھ کھلتا نہیں صاحب
ہماری پالسی تو صاف ہے ایماں فروشی کی
چھپانے کے عوض چھپوا رہے ہیں خود وہ عیب اپنے
نصیحت کیا کروں میں قوم کو اب عیب پوشی کی
پہننے کو تو کپڑے ہی نہ تھے کیا بزم میں جاتے
خوشی گھر بیٹھے کر لی ہم نے جشن تاج پوشی کی
شکست رنگ مذہب کا اثر دیکھیں نئے مرشد
مسلمانوں میں کثرت ہو رہی ہے بادہ نوشی کی
رعایا کو مناسب ہے کہ باہم دوستی رکھیں
حماقت حاکموں سے ہے توقع گرم جوشی کی
ہمارے قافیے تو ہو گئے سب ختم اے اکبرؔ
لقب اپنا جو دے دیں مہربانی ہے یہ جوشی کی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |