نئے جھگڑے نرالی کاوشیں ایجاد کرتے ہیں
نئے جھگڑے نرالی کاوشیں ایجاد کرتے ہیں
وطن کی آبرو اہل وطن برباد کرتے ہیں
ہوا میں اڑ کے سیر عالم ایجاد کرتے ہیں
فرشتے دنگ ہیں وہ کام آدم زاد کرتے ہیں
نیا مسلک نیا رنگ سخن ایجاد کرتے ہیں
عروس شعر کو ہم قید سے آزاد کرتے ہیں
متاع پاس غیرت بوالہوس برباد کرتے ہیں
لب خاموش کو شرمندۂ فریاد کرتے ہیں
ہوائے تازہ پا کر بوستاں کو یاد کرتے ہیں
اسیران قفس وقت سحر فریاد کرتے ہیں
ذرا اے کنج مرقد یاد رکھنا اس حمیت کو
کہ گھر ویران کر کے ہم تجھے آباد کرتے ہیں
ہر اک خشت کہن افسانۂ دیرینہ کہتی ہے
زبان حال سے ٹوٹے کھنڈر فریاد کرتے ہیں
بلائے جاں ہیں یہ تسبیح اور زنار کے پھندے
دل حق بیں کو ہم اس قید سے آزاد کرتے ہیں
اذاں دیتے ہیں بت خانے میں جا کر شان مومن سے
حرم کے نعرۂ ناقوس ہم ایجاد کرتے ہیں
نکل کر اپنے قالب سے نیا قالب بسائے گی
اسیری کے لئے ہم روح کو آزاد کرتے ہیں
محبت کے چمن میں مجمع احباب رہتا ہے
نئی جنت اسی دنیا میں ہم آباد کرتے ہیں
نہیں گھٹتی مری آنکھوں میں تاریکی شب غم کی
یہ تارے روشنی اپنی عبث برباد کرتے ہیں
تھکے ماندے مسافر ظلمت شام غریباں میں
بہار جلوۂ صبح وطن کو یاد کرتے ہیں
دل ناشاد روتا ہے زباں اف کر نہیں سکتی
کوئی سنتا نہیں یوں بے نوا فریاد کرتے ہیں
جناب شیخ کو یہ مشق ہے یاد الٰہی کی
خبر ہوتی نہیں دل کو زباں سے یاد کرتے ہیں
نظر آتی ہے دنیا اک عبادت گاہ نورانی
سحر کا وقت ہے بندے خدا کو یاد کرتے ہیں
سبق عمر رواں کا دل نشیں ہونے نہیں پاتا
ہمیشہ بھولتے جاتے ہیں جو کچھ یاد کرتے ہیں
زمانہ کا معلم امتحاں ان کا نہیں کرتا
جو آنکھیں کھول کر یہ درس ہستی یاد کرتے ہیں
ادب تعلیم کا جوہر ہے زیور ہے جوانی کا
وہی شاگرد ہیں جو خدمت استاد کرتے ہیں
نہ جانی قدر تیری عمر رفتہ ہم نے کالج میں
نکل آتے ہیں آنسو اب تجھے جب یاد کرتے ہیں
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |