ناتواں وہ ہوں نگاہوں میں سما ہی نہ سکوں
ناتواں وہ ہوں نگاہوں میں سما ہی نہ سکوں
بھروں آنکھوں میں نظر سا نظر آ ہی نہ سکوں
دل جلانا ہے تو اے مہر جلا مثل کباب
داغ کچھ مہر نہیں ہے جو اٹھا ہی نہ سکوں
تہ شمشیر دو دم خوش ہوں یہ شیشے کی طرح
ایک دم سنگ دلوں سے میں بنا ہی نہ سکوں
ہم نشیں یار ہو کیا یہ ہے نصیبوں میں فراق
جوڑ اعضا کے بھی اکھڑیں تو بٹھا ہی نہ سکوں
خود فراموش ہوں ایسا کہ دل بے خود سے
یاد اس بت کی بھلاؤں تو بھلا ہی نہ سکوں
خامہ سا ہے ازلی سینہ فگاری میری
زخم دل لاکھ سلاؤں پہ سلا ہی نہ سکوں
دسترس کاکل خم دار یہ ہونا ہی محال
یہ وہ ناگن ہے جو ہاتھوں پہ کھلا ہی نہ سکوں
نازنیں یہ ہے کہ اے شادؔ نظر بازوں کو
کمر اس کی جو دکھاؤں تو دکھا ہی نہ سکوں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |