ناخوش جو ہو گل بدن کسی کا
ناخوش جو ہو گل بدن کسی کا
کیا بھائے اسے سخن کسی کا
گل کی مجھے کیوں کلی دکھائی
یاد آ گیا پھر دہن کسی کا
ہر سنگ کی کوہ پر صدا ہے
یاں دفن ہے کوہ کن کسی کا
کرتے ہو پسند وحشت دل
لے جاؤ گے کیا ہرن کسی کا
بھولی ہے صبا قبائے گل پر
دیکھا نہیں پیرہن کسی کا
عاشق ہی کے جب نہ کام آیا
کس کام کا بانکپن کسی کا
آ جائے کسی کی موت مجھ کو
مل جائے مجھے کفن کسی کا
سینہ سے ہمارا دل نہ لے جاؤ
چھڑواتے ہو کیوں وطن کسی کا
گاتے ہیں سخیؔ ہی کی غزل وہ
بھاتا ہی نہیں سخن کسی کا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |