ناز ہے مشق جفا پر اس ستم ایجاد کو

ناز ہے مشق جفا پر اس ستم ایجاد کو (1934)
by ابراہیم عاجز
324622ناز ہے مشق جفا پر اس ستم ایجاد کو1934ابراہیم عاجز

ناز ہے مشق جفا پر اس ستم ایجاد کو
کب کرے گا شاد میری خاطر ناشاد کو

کس طرح کا سم قاتل ہے یہ شربت عشق کا
جان شیریں زہر آخر ہو گئی فرہاد کو

رحم جب کرتا نہیں نالوں سے پھر کیا فائدہ
درد مندی بلبل نالاں سے کیا صیاد کو

کیسے وہ خوش فہم ہیں پتھر پڑے اس فہم پر
جو جہان آباد سمجھے اس خراب آباد کو

اک تعلق سے ہزاروں رنج ہوتے ہیں نصیب
فکر کرتے کس نے دیکھا ہے کسی آزاد کو

جانتے ہیں جزو ہے ایمان کا حب وطن
بے طرح بھولے وطن ہیں کیا ہوا استاد کو

نالہ و زاری میں اے عاجزؔ تو کیوں مصروف ہے
کون سنتا ہے ارے ناداں تری فریاد کو


This work is in the public domain in the United States because it was first published outside the United States (and not published in the U.S. within 30 days), and it was first published before 1989 without complying with U.S. copyright formalities (renewal and/or copyright notice) and it was in the public domain in its home country on the URAA date (January 1, 1996 for most countries).