نالوں سے اگر میں نے کبھی کام لیا ہے
نالوں سے اگر میں نے کبھی کام لیا ہے
خود ہی اثر نالہ سے دل تھام لیا ہے
آزادئ اندوہ فزا سے ہے رہائی
اب میں نے کچھ آرام تہ دام لیا ہے
اٹھتی تھیں امنگیں انہیں بڑھنے نہ دیا پھر
میں نے دل ناکام سے اک کام لیا ہے
جز مشغلۂ نالہ و فریاد نہ تھا کچھ
جو کام کہ دل سے سحر و شام لیا ہے
خود پوچھ لو تم اپنی نگاہوں سے وہ کیا تھا
جو تم نے دیا میں نے وہ پیغام لیا ہے
تھا تیرا اشارا کہ نہ تھا میں نے دیا دل
اور اپنے ہی سر جرم کا الزام لیا ہے
غم کیسے غلط کرتے جدائی میں تری ہم
ڈھونڈا ہے تجھے ہاتھ میں جب جام لیا ہے
آرام کے اب نام سے میں ڈرنے لگا ہوں
تکلیف اٹھائی ہے جب آرام لیا ہے
معلوم نہیں خوب ہے جو واقف فن ہیں
وحشتؔ نے محاکات سے کیا کام لیا ہے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |