نام لو گے جو یاں سے جانے کا
نام لو گے جو یاں سے جانے کا
آپ میں پھر نہیں میں آنے کا
ہم کو طوف حرم میں یاد آیا
لڑکھڑانا شراب خانے کا
دم لے اے چشم تر کہ دیکھوں میں
عالم اس گل کے مسکرانے کا
دیکھ سکتے نہیں وہ میرا حال
کیا سبب کہئے مسکرانے کا
دل صد چاک کی بنا صورت
زلف پر دل گیا ہے شانے کا
جلوہ اس ضد سے وہ دکھا دیں گے
ہم کو دعویٰ ہے تاب لانے کا
سن کے وہ حال کہتے ہے تسکیںؔ
نام بھی کچھ ہے اس فسانے کا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |