نایاب ہے سکون دل بے قرار میں
نایاب ہے سکون دل بے قرار میں
بسمل کی ہے تڑپ مرے کنج مزار میں
گلزار دہر میں چمن بے خزاں ہوں میں
لالے کا رنگ ہے جگر داغ دار میں
کانٹا ملا ہے گونج کا زلفوں کا جال ہے
بالی کی مچھلی ہاتھ لگی ہے شکار میں
نو لاکھ کی جبھی ہوئی قیمت اسے نصیب
موتی تھے میرے آبلوں کے ان کے ہار میں
ایام عیش میں رخ دولت سے ہے الگ
افسوس پر ہمارے کٹے ہیں بہار میں
جب سے اڑی ہے خاک الم رشک ماہتاب
اک آسمان اور ہے میرے غبار میں
دھوئی ہوئی ہے دودھ سے تیری زبان صاف
اخترؔ تو ہی ہے شاعروں کے اعتبار میں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |