نخل لالے جا جب زمیں سے اٹھا
نخل لالے جا جب زمیں سے اٹھا
شعلہ اک دو وجب زمیں سے اٹھا
تو جو کل خاک کشتگاں سے گیا
شور اس دم عجب زمیں سے اٹھا
بیٹھے بیٹھے جو ہو گیا وہ کھڑا
اک ستارہ سا شب زمیں سے اٹھا
قد وہ بوٹا سا دیکھ کہتی ہے خلق
یہ تو پودا عجب زمیں سے اٹھا
تشنہ صہبائے وصل کا تیری
حشر کو خشک لب زمیں سے اٹھا
بیٹھ کر اٹھ گیا جہاں وہ شوخ
فتنہ واں جب نہ تب زمیں سے اٹھا
سوچتا کیا ہے دیکھ دیکھ اسے
بن اٹھائے وہ کب زمیں سے اٹھا
تھی قضا یوں ہی تیرے کشتے کی
لاش کو اس کی اب زمیں سے اٹھا
گل نہیں مصحفیؔ کا دل ہے یہ
اس کو اے بے ادب زمیں سے اٹھا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |