نذر خالدہ

نذر خالدہ
by مجاز لکھنوی
331907نذر خالدہمجاز لکھنوی

دل مسرت کی فراوانی سے دیوانہ ہے آج
دیکھنا یہ کون آخر زیب کاشانہ ہے آج

کیف صہبائے ترب میں غرق میخانہ ہے آج
ہر شجر ساقی مے ہر پھول پیمانہ ہے آج

غنچہ و گل تھے یہی لیکن یہ رعنائی نہ تھی
اس گلستاں میں بہار اس دھوم سے آئی نہ تھی

نرگس مخمور ہے لذت کش خواب نشاط
پھوٹ نکلا ہے گل نسریں سے سیلاب نشاط

اہل محفل کے لئے مشکل ہے اب تاب نشاط
آج پیمانوں سے چھلکے گی مے ناب نشاط

پرفشاں ہے جذب پنہاں ابھرنے کے لئے
مضطرب ہے ذرہ ذرہ رقص کرنے کے لئے

پھر ادھر آئے نہ آئے یہ شمیم جاں فزا
پھر میسر ہو نہ ہو ایسا سماں ایسی ہوا

چھیڑ اس انداز سے اے مطرب رنگیں نوا
ٹوٹ جائے آج اک اک تار تیرے ساز کا

ذکر جس کا زہرہ و پروین کے کاشانے میں ہے
وہ صنم بھی آج اپنے ہی صنم خانے میں ہے

خالدہ تو ہے بہشت ترکمانی کی بہار
تیری پیشانی پہ نور حریت آئینہ کار

تیرے رخ سے پرتو معصوم مریم آشکار
تیرے جلوؤں کی صباحت سے فرشتے شرمسار

گل پشیماں قلب بلبل رشک سے دو نیم ہے
تیری باتوں میں خمار کوثر و تسنیم ہیں

یوں تو ہم ہر شمع علم و فن کے پروانے رہے
یہ حقیقت ہے کہ ہم تیرے بھی دیوانے رہے

مدتوں اپنی زباں پر تیرے افسانے رہے
تو رہی بیگانہ لیکن ہم نہ بیگانے رہے

یاد تیری اک زمانے سے ہماری دل میں تھی
تو یہاں آنے سے پہلے بھی اسی محفل میں تھی

شوق کی شورش جمال و نور کا سیلاب ہے
ہر کلی ساز طرب ہے ہر نظر مضراب ہے

آنکھ حیراں روح ارباب-وفا بیتاب ہے
یہ ہمارے خواب کی تعبیر ہے یہ خواب ہے

لالہ و گل کیا چمن بھی تیرے قدموں پر نثار
یہ گہر ہائے سخن بھی تیرے قدموں پر نثار

اے مقدس حور اے پروردہ موج نسیم
روح عشرت گاہ ساحل جان طوفان عظیم

تو نے ترکوں کو دکھائی ہے صراط مستقیم
پھونک ڈالے ہیں تعصب کے حجابات قدیم

ضعف دکھلائی ہے جب بھی فطرت احرار نے
آگ برسا دی ہے تیرے نطق گوہر بار نے

رہ چکی ہے ہاتھ میں تیرے وہ تیغ بے نیام
جس کی جنبش نے بدل ڈالا حکومت کا نظام

ترک افتادہ کو تو نے ہی دیا اذن خرام
تیرے ہی ہاتھوں نے چھلکائے ہیں آزادی کے جام

تو نے جو احساں کیا ہیں ملت احرار پر
نقش ہیں اب تک سنورنا کے در و دیوار پر

ہاں بتا دے ہم کو بھی اے روح ارباب نیاز
کس طرح مٹتا ہے آخر رنگ و خوں کا امتیاز

دل پہ کیوں کر فاش ہو جاتے ہیں آزادی کے راز
چھیڑتے ہیں کس طرح محفل میں بیداری کا ساز

تیری آنکھوں میں سرور عشرت جمہور ہے
آہ یہ جوہر ہماری دسترس سے دور ہے

محرم درد و مسرت راز دار صبح و شام
محفل فطرت کی خموشی ہے تجھ سے ہم کلام

تیری ہستی آسمان ترک کا ماہ تمام
تو محبت ہر نفس تیرا محبت کا پیام

گلشن محفل میں مانند سدا آئی ہے تو
صبح روشن کا پیام جاں فزا لائی ہے تو

قربت گل کس قدر جاں بخش ہے خاروں سے پوچھ
چاند کی تنویر میں کیا لطف ہے تاروں سے پوچھ

نشۂ صہبا میں کیا لذت ہے مے خاروں سے پوچھ
چارہ سازی میں مزہ کیا کیا ہے بیماروں سے پوچھ

روح و دل کو جگمگا دے جلوہ آرائی تری
کم سے کم اتنا تو کر جائے مسیحائی تری

کوئی دم میں اس گلستاں سے نکلنا ہے ہمیں
فرش گل سے دور انگاروں پے چلنا ہے ہمیں

خار زار غم کو پیروں سے کچلنا ہے ہمیں
جادۂ منزل میں گرنا ہے سنبھلنا ہے ہمیں

درس ایسا دے کے دل آزردۂ منزل نہ ہو
فکر لا حاصل نہ ہو اندیشۂ باطل نہ ہو


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.