نرگسیں آنکھ بھی ہے ابروئے خم دار کے پاس

نرگسیں آنکھ بھی ہے ابروئے خم دار کے پاس (1914)
by پروین ام مشتاق
308341نرگسیں آنکھ بھی ہے ابروئے خم دار کے پاس1914پروین ام مشتاق

نرگسیں آنکھ بھی ہے ابروئے خم دار کے پاس
دوسری اور بھی تلوار ہے تلوار کے پاس

دشمنوں کا مری قسمت سے ہے قابو مجھ پر
یار کے پاس ہے دل یار ہے اغیار کے پاس

یاد رکھنا جو ہوئی وعدہ خلافی ان کی
بسترہ آن جمے گا تری دیوار کے پاس

قیدیٔ زلف کی قسمت میں ہے رخسار کی سیر
شکر ہے باغ بھی ہے مرغ گرفتار کے پاس

چہرہ بھی برق بھی دل لینے میں گیسو بھی بلا
ایک سا معجزہ ہے کافر و دیں دار کے پاس

غیر بے جرم ہیں اور میں ہوں وفا کا مجرم
کون آتا بھلا مجھ سے گنہ گار کے پاس

قبر میں سوئیں گے آرام سے اب بعد فنا
آئے گا خواب عدم دیدۂ بے دار کے پاس

اس کی کیا وجہ مرے ہوتے وہاں کیوں نہ رہیں
کیوں رہے زلف سیہ آپ کے رخسار کے پاس

ہوشیاری سے ہو پرویںؔ چمن حسن کی سیر
دام اور دانہ ہیں دونوں رخ دل دار کے پاس


Public domain
This work is in the public domain in the United States but it may not be in other jurisdictions. See Copyright.

PD-US //wikisource.org/wiki/%D9%86%D8%B1%DA%AF%D8%B3%DB%8C%DA%BA_%D8%A2%D9%86%DA%A9%DA%BE_%D8%A8%DA%BE%DB%8C_%DB%81%DB%92_%D8%A7%D8%A8%D8%B1%D9%88%D8%A6%DB%92_%D8%AE%D9%85_%D8%AF%D8%A7%D8%B1_%DA%A9%DB%92_%D9%BE%D8%A7%D8%B3