نسیم غم سے ہے آتش بجاں امام حسین

نسیم غم سے ہے آتش بجاں امام حسین
by میر تقی میر
313541نسیم غم سے ہے آتش بجاں امام حسینمیر تقی میر

نسیم غم سے ہے آتش بجاں امام حسین
دم ایک اور ہے اب میہماں امام حسین
چراغ آخر شب ہے گا یاں امام حسین
سحر نمود ہوئی پر کہاں امام حسین

فلک نکالی نئی گردش اب کے اے خوں خوار
کہ قتل ہوتے ہیں ابن علی کے خویش و تبار
ہوئی ہے اول مہ میں کچھ اور لیل و نہار
گھٹے ہے بدر نمط ہر زماں امام حسین

سفر مدینے سے گویا کہ تھا بلا کا سرا
قدم جو راہ میں رکھا تو ہائے پھر نہ پھرا
ملا نہ قطرۂ آب اور لوہو اس کا گرا
ہوا تھا کس گھڑی واں سے رواں امام حسین

نبیؐ نے برسوں تئیں جس کا ناز اٹھایا تھا
علیؓ نے آنکھوں پہ مدت جسے بٹھایا تھا
جسے کہ مہد میں جبریل نے جھلایا تھا
وہ خاک و خون میں اب ہے طپاں امام حسین

مصیبت اس کے تئیں طرفہ پیش آئی ہے
اکیلا دشت میں ہے پیاس ہے لڑائی ہے
نہ کوئی یار ہے نے خویش ہے نہ بھائی ہے
رہا ہے بیکس و بے مہرباں امام حسین

تمام شکل نبیؐ ہی کا تھا علی اکبر
اسی کو دیکھتے مشتاق روے پیغمبرؐ
ہوا برابر خاک سیہ وہ گوہر تر
دیا ہے ہاتھ سے کیسا جواں امام حسین

فرات خاک سر اس کے کہ جس کا ایسا آب
کہ جس سے موجیں اٹھیں با ہزار پیچ و تاب
تمام بادیہ کے وحش و طیر ہوں سیراب
دکھاوے تشنہ لبی سے زباں امام حسین

بھتیجا یوسف ثانی تھا جس کو کھو بیٹھا
بغل میں اصغر ناداں کو لا کے رو بیٹھا
حشم خدم سبھی سے ناامید ہو بیٹھا
محل رحم تھا بے خانماں امام حسین

پیاس حد سے زیادہ تھی ہائے دم نہ لیا
تمام آب کا خنجر کی ایک گھونٹ کیا
رضا میں مر ہی گیا آنکھ موند کر نہ جیا
شہید تیغ ستم پیشگاں امام حسین

کوئی نہ دادگر و دادرس جو دیوے داد
ستم اس ایک پہ واں ہورہا تھا حد سے زیاد
بلند چاروں طرف سے ہوئی تھی تیغ عناد
تلف دریغ ہوا درمیاں امام حسین

ہوا جو قتل شہ کم سپاہ دیں مہجور
پڑا تھا خاک کے اوپر نپٹ ہی بے دستور
جگر کے ٹکڑے پڑے لعل پارہ سے تھے حضور
گیا ہے دیکھ کے کیسا سماں امام حسین

کہوں سو شام کے لوگوں کی کیا مروت کو
پھر ان کے آنکھ چھپانے کو یا قساوت کو
چلے ہیں قبلہ کو رو کرکے سب عبادت کو
ہوا ہے ذبح ابھی ناتواں امام حسین

عجب عبادت حق پر تھے مستعد ناساز
شتاب قتل نبی زادہ بیچ کر غماز
نماز کرنے کو دوڑے تھے سب یہ کیسی نماز
پڑا تھا خاک میں خوں میں عیاں امام حسین

سر آفتاب کا دیں کے کیا روانۂ شام
کفن بغیر رکھی خاک و خوں میں لاش امام
پھرا کی مضطرب الحال روح خیرانام
پڑا تھا بے سر و ساماں جہاں امام حسین

جھڑے کٹے یہ گل و بوٹے سارے دل افروز
پسر برادر و قاسم دلوں میں جن کے سوز
گیا تو جان سے پر خوب سیر کی دس روز
چمن میں اپنے بہار خزاں امام حسین

کہیں تھے عترت احمد کے دل جلے رو رو
چراغ اب نہ رہا گھر میں عابدیں بن سو
وہ قیدی شام کو جاتا ہے دیکھیے کیا ہو
گیا ہے ہم سے تو دامن فشاں امام حسین

ہوا جو لاشۂ مظلوم پر سے ہوکے گذار
قیامت ایک ہوئی عترت نبی سے دوچار
پکارا دیکھتے ہی رو کے عابد بیمار
رہا تھا ایک میں تیرا نشاں امام حسین

عناں ہے ابلق ایام کی فلک کے ہاتھ
کہوں سو کیا کہوں بنتی نہیں ہے کوئی بات
یہ کاش جان سبک کھوئی ہوتی تیرے ساتھ
گلے میں طوق ہے میرے گراں امام حسین

مژہ میں لخت جگر اپنے میں پروتا ہوں
کباب آتش غیرت کے بیچ ہوتا ہوں
حرم کے لوگوں کو میں دیکھ دیکھ روتا ہوں
پھر اس پہ ان کی یہ آہ و فغاں امام حسین

پڑا جلے ہے ترا لاشہ دھوپ میں مظلوم
اسیر کرکے مجھے لے چلی ہے قوم شوم
کفن کی فکر جو کرجاؤں تیری سو معلوم
ہو آفتاب ترا سایہ باں امام حسین

خدا کو سونپ کے اس بے کفن کو وہ بے دل
گیا یہ کہہ کے کہ بابا ہے سخت یہ مشکل
جرس کے طرز میں نالاں ہوں ساتھ تا منزل
گیا ہے چھوڑ کے تو کارواں امام حسین

فلک نے کی نہ مدد اب بھی ان غریبوں کی
خراب ہوتی نہ مٹی جو بے نصیبوں کی
تسلی ہوتی رہی باقی ناشکیبوں کی
ہوا نہ زیر زمیں بھی نہاں امام حسین

خبر بھی ہے تجھے کس کا لہو پیا ہے تیں
چراغ خانۂ حیدر بجھا دیا ہے تیں
کرے گا نفع نہ محشر کو جو کیا ہے تیں
گیا ہے کھینچ کے جی کا زیاں امام حسین

قیامت ایک نمودار ہوگی محشر کو
سخن میں لاویں گے جب اس جوان بے سر کو
عجب نہیں ہے جو بے تابی آوے داور کو
کرے گا گر یہ مصیبت بیاں امام حسین

تمھارے لطف سے خاطر میں میرؔ کے ہے نہاں
کہ روز حشر کو ہووے رکاب ہی میں رواں
صف نعال جوانان کربلا ہو جہاں
ملے اسے بھی اسی جا مکاں امام حسین


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.