نشتر کی نوک دل میں اتارے چلے گئے

نشتر کی نوک دل میں اتارے چلے گئے
by عابد علی عابد

نشتر کی نوک دل میں اتارے چلے گئے
ہم یوں عروس غم کو سنوارے چلے گئے

آیا نہ ہاتھ گوشۂ دامان التفات
لیکن فقیر ہاتھ پسارے چلے گئے

قائم رہیں بوصف کرم بھی حدود ناز
دریا کے ساتھ ساتھ کنارے چلے گئے

دل کو تمہیں نے ہاتھ میں لے کر مسل دیا
ہم سادہ دل تمہیں کو پکارے چلے گئے

چلنا رہ حیات پہ دشوار تھا مگر
تیرے متاع غم کے سہارے چلے گئے

آیا ترا خیال مٹے نقش ماسوا
ابھرا افق سے چاند ستارے چلے گئے

محفل کو ناگوار تھی عرض شکست دل
محفل سے اٹھ کے درد کے مارے چلے گئے

ہاں اے زمین گور غریباں جواب دے
کیوں مجھ سے روٹھ کر مرے پیارے چلے گئے

عابدؔ زمانہ ہم کو مٹاتا چلا گیا
ہم نقش زندگی کو ابھارے چلے گئے

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse