نظروں سے گلوں کی نونہالو
نظروں سے گلوں کی نونہالو
شبنم کی طرح گرا سنبھالو
مانو رہ سرکشی نکالو
پگڑی مہ و مہر کی اچھالو
صیاد خفا ہے بلبل و کبک
خاموش رہو نہ بولو چالو
اصنام میں شان حق عیاں ہے
آنکھیں ہیں تو ان کو دیکھو بھالو
ٹھہرو کوئی دم کے مہمان ہیں
چلتے تو ہیں ہم بھی چلنے والو
مشتاق لقا ہے اک خدائی
اب وعدہ حشر پر نہ ٹالو
جھوٹے وہ تم اے گلو ہو برسوں
بے دودھ جو طفل غنچہ پا لو
چھلنی یوں ہی دل ہے نیش غم سے
مژگاں کی نہ برچھیاں سنبھالوں
ہولی نئے قمقموں سے کھیلو
پر خون دل عاشقاں اچھالو
مارا ہی جو شادؔ کو حسینو
خاطر سے غبار تو نکالو
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |