نظر کر تیز ہے تقدیر مٹی کی کہ پتھر کی
نظر کر تیز ہے تقدیر مٹی کی کہ پتھر کی
بتوں کو دیکھ ہیں تصویر مٹی کی کہ پتھر کی
کیا تو نے بتوں کو سجدہ آدم کو فرشتوں نے
برہمن ہے سوا توقیر مٹی کی کہ پتھر کی
میں پتلا سخت جانی کا ہوں یا گرد کدورت کا
نہیں معلوم ہوں تصویر مٹی کی کہ پتھر کی
غموں پر خاک ڈالوں میں کہ روکوں جوش وحشت کو
تردد ہے کروں تدبیر مٹی کی کہ پتھر کی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |