نفس سرکش کو قتل کر اے دل
نفس سرکش کو قتل کر اے دل
مستعد ہو جہاد پر اے دل
نہ پھلے گی تجارت دنیا
ہے یہاں نفع میں ضرر اے دل
تیرے کردار پر ہیں شاہد حال
خشک لب اور چشم تر اے دل
نہ رو الفت نہ ہاتھ سے جائے
کھیل جا اپنی جان پر اے دل
چاہیے بے محل نہ ٹپکے اشک
ابروؤں پر رہے نظر اے دل
بے خودی میں نکل چلا ہے کدھر
بھول جانا نہ اپنا گھر اے دل
کوئے جاناں ہے مقتل عشاق
لے چلا ہے مجھے کدھر اے دل
جان جانی ہے تجھ کو ہوش نہیں
تو بھی کتنا ہے بے خبر اے دل
عشق بازی ہے آبرو ریزی
اپنے فعلوں سے درگزر اے دل
کیوں نکل کر ذلیل ہوتی ہے
تیری فریاد بے اثر اے دل
دھیان آٹھوں پہر اسی کا ہے
کبھی اپنی بھی لی خبر اے دل
عشق کے معرکے میں مار قدم
فتح ہے تیرے نام پر اے دل
اشک ہو کر بہا کہ خون ہوا
کیا ہوئی حالت جگر اے دل
غم عالم ہے تیرے حصے میں
تو بھی کیا ہے نصیب ور اے دل
تو اگر آگ ہے وہ پانی ہے
بحرؔ کے شر سے خوف کر اے دل
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |