نفس سگ پلید کو گر اپنے ماریے

نفس سگ پلید کو گر اپنے ماریے (1893)
by مرزا مسیتابیگ منتہی
317553نفس سگ پلید کو گر اپنے ماریے1893مرزا مسیتابیگ منتہی

نفس سگ پلید کو گر اپنے ماریے
مانند شیر دشت جہاں میں ڈکاریے

اس گل کو جوش گل میں یہ کہہ کر ابھاریے
گلشن میں عندلیب کو چل کر پکاریے

پھر مرغ دل کو پھانسیے پھر جال ماریے
پھر ہو سکے تو آپ سے گیسو سنواریے

پیری میں کیف عشق سے توبہ تو کیجیے
منزل رہی ہے تھوڑی سی ہمت نہ ہاریے

گرداب بحر عشق کے چکر ہیں رات دن
کون آشنائے حال ہے کس کو پکاریے

دل دے کے جور و ظلم کا شکوہ نہ کیجیے
دو دن کی زندگی کسی ڈھب سے گزاریے

اہل ہوس کی دہر میں مٹی خراب ہے
گلیوں میں خاک چھان رہی ہیں نیاریے

مانند زلف غیر کو کیوں سر چڑھائیے
آنکھوں سے شکل اشک کے اس کو اتارئیے

پیدا کریں اثر جو در اشک ناصحو
ان موتیوں پہ ہنس کو سو بار واریے

جز میرے دال آپ کی گلتی نہیں کہیں
یوں منہ سے جتنی چاہئے شیخی بگھاریے

نالہ جو زیر تیغ کیا میں نے جس گھڑی
بولے کہ ایک دم کے لئے دم نہ ماریے

توبہ شراب عشق سے کس طرح کیجیے
کیوں کر یہ جن چڑھا ہوا سر سے اتاریے

کیا کیا نہ دوست اپنے میان عدم گئے
کس کو تلاش کیجیے کس کو پکاریے

اس بت کے بحر حسن میں دل کو ڈبویے
اس کشتیٔ حیات کو یوں پار اتاریے

منظور ہو جو راحت کونین منتہیؔ
ہاتھوں کو کھیچ لیجئے پاؤں پساریے


Public domain
This work is in the public domain in the United States but it may not be in other jurisdictions. See Copyright.

PD-US //wikisource.org/wiki/%D9%86%D9%81%D8%B3_%D8%B3%DA%AF_%D9%BE%D9%84%DB%8C%D8%AF_%DA%A9%D9%88_%DA%AF%D8%B1_%D8%A7%D9%BE%D9%86%DB%92_%D9%85%D8%A7%D8%B1%DB%8C%DB%92