نقش بیٹھے ہے کہاں خواہش آزادی کا
نقش بیٹھے ہے کہاں خواہش آزادی کا
ننگ ہے نام رہائی تری صیادی کا
داد دے ورنہ ابھی جان پہ کھیلوں ہوں میں
دل جلانا نہیں دیکھا کسی فریادی کا
تو نے تلوار رکھی سر رکھا میں بندہ ہوں
اپنی تسلیم کا بھی اور تری جلادی کا
شہر کی سی رہی رونق اسی کے جیتے جی
مر گیا قیس جو تھا خانہ خدا وادی کا
شیخ کیا صورتیں رہتی تھیں بھلا جب تھا دیر
رو بہ ویرانی ہو اس کعبے کی آبادی کا
ریختہ رتبے کو پہنچایا ہوا اس کا ہے
معتقد کون نہیں میرؔ کی استادی کا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |