نمائش میں

نمائش میں
by مجاز لکھنوی

وہ کچھ دوشیزگان ناز پرور
کھڑی ہیں اک بساطی کی دکاں پر

نظر کے سامنے ہے ایک محشر
اور اک محشر ہے میرے دل کے اندر

سنہرا کام رنگیں ساریوں پر
بساط آسماں پر ماہ و اختر

جمال و حسن کے پر رعب تیور
نمایاں چاند سی پیشانیوں پر

وہ رخساروں پہ ہلکی ہلکی سرخی
لبوں میں پر فشاں روح گل تر

سیہ زلفوں میں روح سنبلستاں
نظر سر چشمۂ تسنیم و کوثر

ادائے ناز غرق کیف صہبا
سیہ مژگاں شراب آلودہ نشتر

چمک تاروں کی چشم سرمگیں میں
جھلک چاندی کی جسم مرمریں میں

وہ خوشبو آ رہی ہے پیرہن سے
فضا ہے دور تک جس سے معطر

تبسم اور ہنسی کے نرم طوفاں
فضاؤں میں مسلسل بارش زر

نشاط رنگ و بو سے چور آنکھیں
شراب ناب سے لبریز ساغر

وہ محرابیں سی سینوں پر نمایاں
فضائے نور میں کیوپڈ کے شہ پر

نفس کے آمد و شد سے تلاطم
شب مہتاب میں جیسے سمندر

ستاروں کی نگاہیں جھک گئی ہیں
زمیں پھر خندہ زن ہے آسماں پر

کوئی آئینہ دار حسن فارس
کسی میں حسن یونانی کے جوہر

کسی میں عکس معصوم کلیسا
کسی میں پرتو اصنام آذر

یہ شیریں ہے وہ نوشابہ ہے شاید
نہیں یاں فرق فرہاد و سکندر

یہ اپنے حسن میں عذرائے وامق
وہ اپنے ناز میں سلمائے اخترؔ

یہ تابانی میں خورشید درخشاں
وہ رعنائی میں اس سے بھی فزوں تر

ہنسی اس کی طلوع صبح خنداں
نوا اس کی سرود کیف آور

یہ شعلہ آفریں وہ برق افگن
یہ آئینہ جبیں وہ ماہ پیکر

وہ جنبش سی ہوئی کچھ آنچلوں کو
وہ لہریں سی اٹھیں کچھ ساریوں پر

خرام ناز سے نغمے جگاتی
وہ چل دیں ایک جانب مسکرا کر

کسی کی حسرتیں پامال کرتی
کسی کی حسرتیں ہمراہ لے کر

کبھی آنکھیں دکانوں پر جمی ہیں
کبھی خود اپنی ہی برنائیوں پر

ادھر ہم نے اک آہ سرد کھینچی
ہنسی پھر آ گئی اپنے کئے پر

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse