نور سحر کہاں ہے اگر شام غم گئی

نور سحر کہاں ہے اگر شام غم گئی
by مختار صدیقی
330625نور سحر کہاں ہے اگر شام غم گئیمختار صدیقی

نور سحر کہاں ہے اگر شام غم گئی
کب التفات تھا کہ جو خوئے ستم گئی

پھیرا بہار کا تو برس دو برس میں ہے
یہ چال ہے خزاں کی جو رک رک کے تھم گئی

شاید کوئی اسیر ابھی تک قفس میں ہے
پھر موج گل چمن سے جو با چشم نم گئی

قبضہ میں جوش گل نہ خزاں دسترس میں ہے
راحت بھی کب ملی ہے اگر وجہ غم گئی

ہاں طرح آشیاں بھی انہیں خار و خس میں ہے
بجلی جہاں پہ خاص بہ رنگ کرم گئی

ہاں شائبہ گریز کا بھی پیش و پس میں ہے
وہ بے رخی کہ ناز کا تھی جو بھرم گئی

اب کائنات اور خداؤں کے بس میں ہے
اب رہبری میں قدرت دیر و حرم گئی

جادو غزل کا جذب تمنا کے رس میں ہے
یعنی وہ دل کی بات دلوں میں جو دم گئی


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.