نکلی جو روح جسم سے پھر ہے بدن میں کیا

نکلی جو روح جسم سے پھر ہے بدن میں کیا
by شاہ اکبر داناپوری

نکلی جو روح جسم سے پھر ہے بدن میں کیا
جب شمع بجھ گئی تو رہا انجمن میں کیا

وہ شعر کیا کہ دل میں جو نشتر چبھا نہ دے
ہو جس میں بو نہ درد کی ہے اس سخن میں کیا

ٹیڑھا جواب دیتے ہو تم سیدھی بات کا
یاد اک ادا یہی ہے تمہیں بانکپن میں کیا

حل کر دیا تبسم لب نے یہ مسئلہ
اب عذر آپ کو ہے ثبوت دہن میں کیا

آ ہم دکھائیں داغ جگر کی تجھے بہار
اے عندلیب سیر ہے تیرے چمن میں کیا

کیوں چومتے ہیں اس کو نکیرین بار بار
نام اس کا ہے لکھا ہوا میرے کفن میں کیا

سو عہد اس نے توڑے مگر پھر یقین ہے
ہے معجزہ یہی لب پیماں شکن میں کیا

اے اہل عقل اس کا مزا یوں نہ آئے گا
دیوانہ بن کے دیکھو ہے دیوانہ پن میں کیا

جو نافہ ہے وہ کاکل مشکیں کی ہے گرہ
صد رنگ کیا ہے اور ہے رنگ سمن میں کیا

تم مال دار ہو نہ ہنر ور نہ با کمال
اکبرؔ تمہاری قدر ہو ملک دکن میں کیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse