نہیں ثبات بلندی عز و شاں کے لیے

نہیں ثبات بلندی عز و شاں کے لیے
by محمد ابراہیم ذوق
296573نہیں ثبات بلندی عز و شاں کے لیےمحمد ابراہیم ذوق

نہیں ثبات بلندی عز و شاں کے لیے
کہ ساتھ اوج کے پستی ہے آسماں کے لیے

ہزار لطف ہیں جو ہر ستم میں جاں کے لیے
ستم شریک ہوا کون آسماں کے لیے

مزے یہ دل کے لیے تھے نہ تھے زباں کے لیے
سو ہم نے دل میں مزے سوزش نہاں کے لیے

فروغ عشق سے ہے روشنی جہاں کے لیے
یہی چراغ ہے اس تیرہ خاکداں کے لیے

صبا جو آئے خس و خار گلستاں کے لیے
قفس میں کیونکہ نہ پھڑکے دل آشیاں کے لیے

دم عروج ہے کیا فکر نردباں کے لیے
کمند آہ تو ہے بام آسماں کے لیے

سدا تپش پہ تپش ہے دل تپاں کے لیے
ہمیشہ غم پہ ہے غم جان ناتواں کے لیے

وبال دوش ہے اس ناتواں کو سر لیکن
لگا رکھا ہے ترے خنجر و سناں کے لیے

بیان درد و محبت جو ہو تو کیونکر ہو
زبان دل کے لیے ہے نہ دل زباں کے لیے

مثال نے ہے مرے جب تلک کہ دم میں دم
فغاں ہے میرے لیے اور میں فغاں کے لیے

بلند ہووے اگر کوئی میرا شعلۂ آہ
تو ایک اور ہو خورشید آسماں کے لیے

چلے ہیں دیر کو مدت میں خانقاہ سے ہم
شکست توبہ لیے ارمغاں مغاں کے لیے

حجر کے چومنے ہی پر ہے حج کعبہ اگر
تو بوسے ہم نے بھی اس سنگ آستاں کے لیے

نہ چھوڑ تو کسی عالم میں راستی کہ یہ شے
عصا ہے پیر کو اور سیف ہے جواں کے لیے

جو پاس مہر و محبت کہیں یہاں بکتا
تو مول لیتے ہم اک اپنے مہرباں کے لیے

خلش سے عشق کی ہے خار پیرہن تن زار
ہمیشہ اس ترے مجنون ناتواں کے لیے

تپش سے دل کی یہ احوال ہے مرا گویا
بجائے مغز ہے سیماب استخواں کے لیے

مرے مزار پہ کس وجہ سے نہ برسے نور
کہ جان دی ترے روئے عرق فشاں کے لیے

الٰہی کان میں کیا اس صنم نے پھونک دیا
کہ ہاتھ دھرتے ہیں کانوں پہ سب اذاں کے لیے

نہیں ہے خانہ بدوشوں کو حاجت ساماں
اثاثہ چاہیئے کیا خانۂ کماں کے لیے

نہ دل رہا نہ جگر دونوں جل کے خاک ہوئے
رہا ہے سینے میں کیا چشم خوں فشاں کے لیے

نہ لوح گور پہ مستوں کی ہو نہ ہو تعویذ
جو ہو تو خشت خم مے کوئی نشاں کے لیے

اگر امید نہ ہمسایہ ہو تو خانۂ یاس
بہشت ہے ہمیں آرام جاوداں کے لیے

وہ مول لیتے ہیں جس دم کوئی نئی تلوار
لگاتے پہلے مجھی پر ہیں امتحاں کے لیے

صریح چشم سخن گو تری کہے نہ کہے
جواب صاف ہے پر طاقت و تواں کے لیے

اشارہ چشم کا تیری یکایک اے قاتل
ہوا بہانہ مری مرگ ناگہاں کے لیے

رہے ہے ہول کہ برہم نہ ہو مزاج کہیں
بجا ہے ہول دل ان کے مزاج داں کے لیے

بنایا آدمی کو ذوقؔ ایک جزو ضعیف
اور اس ضعیف سے کل کام دو جہاں کے لیے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.