نہیں ممکن لب عاشق سے حرف مدعا نکلے
نہیں ممکن لب عاشق سے حرف مدعا نکلے
جسے تم نے کیا خاموش اس سے کیا صدا نکلے
قیامت اک بپا ہے سینۂ مجروح الفت میں
نہ تیر دلنشیں نکلے نہ جان مبتلا نکلے
تمہارے خوگر بیداد کو کیا لطف کی حاجت
وفا ایسی نہ کرنا تم جو آخر کو جفا نکلے
گماں تھا کام دل اغیار تم سے پاتے ہیں لیکن
ہماری طرح وہ بھی کشتۂ تیغ جفا نکلے
زبردستی غزل کہنے پہ تم آمادہ ہو وحشتؔ
طبیعت جب نہ ہو حاضر تو پھر مضمون کیا نکلے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |