نہیں ہونے کا یہ خون جگر بند

نہیں ہونے کا یہ خون جگر بند
by امداد علی بحر

نہیں ہونے کا یہ خون جگر بند
نہ باندھی آستین آنکھوں پہ تر بند

نہ پوچھو بے بسی اپنا ہے وہ حال
اسیر رشتہ بر پا مرغ پر بند

جدا ہوتا نہیں پہلو سے دم بھر
یہ داغ دل ہے یا کوئی جگر بند

کہیں ایسا نہ ہو وہ آ کے پھر جائے
کسی شب بند ہوں آنکھیں نہ در بند

یہی قاصد پتا ہے اس کے گھر کا
ادھر جا جس طرف ہے رہ گزر بند

یہ چوسر عشق بازی کی ہے اے دل
نہ چلنا چال وہ جس سے ہو گھر بند

اجازت اک تڑپ کی دے جو صیاد
قفس کو لے اڑیں ہم مرغ پر بند

یہ حال ناتوانی ہے کہ آنکھیں
کھلیں جو ایک دم تو دوپہر بند

نہیں یہ پتلیاں او چشم فتاں
ترے گھر میں ہیں دو فتنے نظر بند

میں گھبراتا ہوں محرم سے تمہاری
کھلے دل کی گرہ کھولو اگر بند

دعا یہ مانگتا ہوں میں شب وصل
قیامت تک رہی باب سحر بند

خدا جانے کہاں ہوں اور کیا ہوں
کھلے احوال کیا جب ہو خبر بند

جو ہاتھ آئیں اسے یہ دانۂ اشک
رہی مشت صدف مثل گہر بند

لکھے گا حال دل اے بحرؔ کب تک
بس اب ویفر لگا مکتوب کر بند

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse