نہ آسمان ہے ساکت نہ دل ٹھہرتا ہے

نہ آسمان ہے ساکت نہ دل ٹھہرتا ہے
by ثاقب لکھنوی

نہ آسمان ہے ساکت نہ دل ٹھہرتا ہے
زمانہ نام گزرنے کا ہے گزرتا ہے

وہ میری جان کا دشمن سہی مگر صیاد
مری کہی ہوئی باتوں پہ کان دھرتا ہے

ہمیں ہیں وہ جو امید فنا پہ جیتے ہیں
زمانہ زندگیٔ بے بقا پہ مرتا ہے

ابھی ابھی در زنداں پہ کون کہتا تھا
ادھر سے ہٹ کے چلو کوئی نالے کرتا ہے

وہی سکوت سے اک عمر کاٹنے والا
جو سننے والا ہو کوئی تو کہہ گزرتا ہے

حریف بزم میں چھیڑا کریں مگر ثاقبؔ
وہ دل جو بیٹھ گیا ہو کہیں ابھرتا ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse