نہ آیا کر کے وعدہ وصل کا اقرار تھا کیا تھا

نہ آیا کر کے وعدہ وصل کا اقرار تھا کیا تھا (1914)
by پروین ام مشتاق
308313نہ آیا کر کے وعدہ وصل کا اقرار تھا کیا تھا1914پروین ام مشتاق

نہ آیا کر کے وعدہ وصل کا اقرار تھا کیا تھا
کسی کے بس میں تھا مجبور تھا لاچار تھا کیا تھا

برا ہو بد گمانی کا وہ نامہ غیر کا سمجھا
ہمارے ہاتھ میں تو پرچۂ اخبار تھا کیا تھا

صدا سنتے ہی گویا مردنی سی چھا گئی مجھ پر
یہ شور صور تھا یا وصل کا انکار تھا کیا تھا

خدا کا دوست ہے تعمیر دل جو شخص کرتا ہو
خلیل اللہ بھی کعبہ کا اک معمار تھا کیا تھا

نہ آئے تم نہ آؤ میں نے کیا کچھ منتیں کی تھیں
تمہیں نے خود کیا تھا عہد یہ اقرار تھا کیا تھا

ہوا میں جب اڑا پردہ تو اک بجلی سی کوندی تھی
خدا جانے تمہارا پرتو رخسار تھا کیا تھا

ملا تو ہم سے محفل میں جو شب کو غیر کیوں بگڑا
ترا حاکم تھا ٹھیکا دار تھا مختار تھا کیا تھا

مری میت پہ ماتم کرتے ہو اللہ رے چالاکی
خبر ہے خود تمہیں مدت سے میں بیمار تھا کیا تھا

ہزاروں حسرتیں بیتاب تھیں باہر نکلنے کو
وہ سوتے میں بھی پرویںؔ فتنۂ بیدار تھا کیا تھا


Public domain
This work is in the public domain in the United States but it may not be in other jurisdictions. See Copyright.

PD-US //wikisource.org/wiki/%D9%86%DB%81_%D8%A2%DB%8C%D8%A7_%DA%A9%D8%B1_%DA%A9%DB%92_%D9%88%D8%B9%D8%AF%DB%81_%D9%88%D8%B5%D9%84_%DA%A9%D8%A7_%D8%A7%D9%82%D8%B1%D8%A7%D8%B1_%D8%AA%DA%BE%D8%A7_%DA%A9%DB%8C%D8%A7_%D8%AA%DA%BE%D8%A7