نہ ادا مجھ سے ہوا اس ستم ایجاد کا حق

نہ ادا مجھ سے ہوا اس ستم ایجاد کا حق
by عبدالرحمان احسان دہلوی

نہ ادا مجھ سے ہوا اس ستم ایجاد کا حق
میری گردن پہ رہا خنجر بیداد کا حق

ناصحو گر نہ سنوں میں مری قسمت کا قصور
تم نے ارشاد کیا جو کہ ہے ارشاد کا حق

یاد تو حق کی تجھے یاد ہی پر یاد رہی
یار دشوار ہے وہ یاد جو ہے یاد کا حق

اپنی تصویر پہ صدقے ترے صدقے کر اسے
اسی صورت سے ادا ہووے گا بہزاد کا حق

حق کو باطل کوئی کس طرح سے کہہ دے اے بت
کہیں ثانی نہیں اس حسن خداداد کا حق

جاں کنی پیشہ ہو جس کا وہ لحق ہے تیرا
تجھ پہ شیریں ہے نہ خسرو کا نہ فرہاد کا حق

بار احساں سے نہیں سر بھی اٹھا سکتا ہوں
میرے سر پر ہی رہا اس مرے جلاد کا حق

سن کے کہتا ہے یہاں کون ہے سنتا مت سن
سننے والا ہی سنا اس مری فریاد کا حق

وہی انسان ہے احساںؔ کہ جسے علم ہے کچھ
حق یہ ہے باپ سے افزوں رہے استاد کا حق

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse