نہ ارماں بن کے آتے ہیں نہ حسرت بن کے آتے ہیں

نہ ارماں بن کے آتے ہیں نہ حسرت بن کے آتے ہیں
by بیخود دہلوی

نہ ارماں بن کے آتے ہیں نہ حسرت بن کے آتے ہیں
شب وعدہ وہ دل میں درد فرقت بن کے آتے ہیں

پریشاں زلف منہ اترا ہوا محجوب سی آنکھیں
وہ بزم غیر سے عاشق کی صورت بن کے آتے ہیں

بنے ہیں شیخ صاحب نقل مجلس بزم رنداں میں
جہاں تشریف لے جاتے ہیں حضرت بن کے آتے ہیں

نہ رکھنا ہم سے کچھ مطلب یہ پہلی شرط ہے ان کی
وہ جس کے پاس آتے ہیں امانت بن کے آتے ہیں

ستم کی خواہشیں بیخودؔ غضب کی آرزوئیں ہیں
جوانی کے یہ دن شاید مصیبت بن کے آتے ہیں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse