نہ بلوایا نہ آئے روز وعدہ کر کے دن کاٹے

نہ بلوایا نہ آئے روز وعدہ کر کے دن کاٹے
by مضطر خیرآبادی

نہ بلوایا نہ آئے روز وعدہ کر کے دن کاٹے
بڑے وہ ہو کہ تم نے اچھا اچھا کر کے دن کاٹے

اکیلے کیا تمہیں نے سختیاں جھیلیں جدائی کی
نہیں ہم نے بھی پتھر کا کلیجا کر کے دن کاٹے

بتا مجھ کو طریقہ اے شب غم سال کٹنے کا
کوئی بارہ مہینے تیس دن کیا کر کے دن کاٹے

جسے اپنا سمجھتے تھے وہی دل ہو گیا ان کا
کوئی دنیا میں اب کس کا بھروسا کر کے دن کاٹے

قضا بھی آ گئی لیکن نہ آنا تھا نہ آئے وہ
یہ میں نے عمر بھر کس کی تمنا کر کے دن کاٹے

تمہارا کیا کھلے بندوں رہے چاہے جسے دیکھا
کمال اس نے کیا مضطرؔ کہ پردا کر کے دن کاٹے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse