نہ بچپن میں کہو ہم کو کڑی بات

نہ بچپن میں کہو ہم کو کڑی بات
by سخی لکھنوی

نہ بچپن میں کہو ہم کو کڑی بات
نہ کھلواؤ کہ چھوٹا منہ بڑی بات

سنو تو گوہر دنداں کی تعریف
ابھی ہو جائے موتی کی لڑی بات

بڑے اندھیر کی تزئین ہے آج
نہ ہونے دے گی مسی کی دھڑی بات

جہاں اغیار ان کے پاس بیٹھے
وہیں بس ہو گئی کوئی گھڑی بات

پیام وصل پر وہ ہو گئے ترش
غضب آیا کھٹائی میں پڑی بات

ہم ان سے آج کا شکوہ کریں گے
اکھاڑیں گے وہ برسوں کی گڑی بات

طبیعت ان کی ہے کچھ اکھڑی اکھڑی
کسی نے پھر وہاں میری جڑی بات

یہ کس مژگاں کی برچھی کا تھا مذکور
انی ہو کر کلیجہ میں اڑی بات

سخیؔ وہ یوں تو بولیں گے نہ ہم سے
کبھی ہو جائے گی دھوکھے دھڑی بات

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse