نہ تن میں استخوان نے رگ رہی ہے
نہ تن میں استخوان نے رگ رہی ہے
لبوں پر کیونکہ جان اب لگ رہی ہے
ہمیں پوچھو تو ہستی سے عدم تک
مسافت کیا ہے ہاں یک ڈگ رہی ہے
تمہاری یاد میں اے شعلہ خوباں
زبان شمع پر لو لگ رہی ہے
ہمیں یک عمر سے کوچے میں اس کے
تلاش پائے بوس سگ رہی ہے
نہ جا اس کی طرف تو آج حاتمؔ
وہاں شمشیر ابرو بگ رہی ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |