نہ جنوں جائے گا کبھی میرا
نہ جنوں جائے گا کبھی میرا
یار ہے غیرت پری میرا
دل نہ لے اے صنم برائے خدا
کچھ بہلتا ہے اس سے جی میرا
اس کا حیران ہوں جو کہتا ہے
دیکھ لے منہ نہ آرسی میرا
اب نہیں دل کو تاب فرقت کی
دم نکلتا ہے اے پری میرا
لذت قتل کیا کہوں قاتل
چاٹتی ہے لہو چھری میرا
جان جاں ذکر کر نہ جانے کا
دم نکل جائے گا ابھی میرا
غنچۂ گل تو ہنس کے کہتا ہے
منہ چڑھانے لگی کلی میرا
اب کی فرقت میں گر رہا جیتا
دیکھئے گا نہ منہ کبھی میرا
بے نشاں ہوں مثال عنقا کی
نام اے عرشؔ تو سہی میرا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |