نہ حاصل ہوا صبر و آرام دل کا
نہ حاصل ہوا صبر و آرام دل کا
نہ نکلا کبھی تم سے کچھ کام دل کا
محبت کا نشہ رہے کیوں نہ ہر دم
بھرا ہے مئے عشق سے جام دل کا
پھنسایا تو آنکھوں نے دام بلا میں
مگر عشق میں ہو گیا نام دل کا
ہوا خواب رسوا یہ عشق بتاں میں
خدا ہی ہے اب میرے بدنام دل کا
یہ بانکی ادائیں یہ ترچھی نگاہیں
یہی لے گئیں صبر و آرام دل کا
دھواں پہلے اٹھتا تھا آغاز تھا وہ
ہوا خاک اب یہ ہے انجام دل کا
جب آغاز الفت ہی میں جل رہا ہے
تو کیا خاک بتلاؤں انجام دل کا
خدا کے لئے پھیر دو مجھ کو صاحب
جو سرکار میں کچھ نہ ہو کام دل کا
پس مرگ ان پر کھلا حال الفت
گئی لے کے روح اپنی پیغام دل کا
تڑپتا ہوا یوں نہ پایا ہمیشہ
کہوں کیا میں آغاز و انجام دل کا
دل اس بے وفا کو جو دیتے ہو اکبرؔ
تو کچھ سوچ لو پہلے انجام دل کا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |