نہ درویشوں کا خرقہ چاہیئے نہ تاج شاہانا
نہ درویشوں کا خرقہ چاہیئے نہ تاج شاہانا
مجھے تو ہوش دے اتنا رہوں میں تجھ پہ دیوانا
کتابوں میں دھرا ہے کیا بہت لکھ لکھ کے دھو ڈالیں
ہمارے دل پہ نقش کالجحر ہے تیرا فرمانا
غنیمت جان جو دم گزرے کیفیت سے گلشن میں
دئیے جا ساقی پیماں شکن بھر بھر کے پیمانا
نہ دیکھا وہ کہیں جلوہ جو دیکھا خانۂ دل میں
بہت مسجد میں سر مارا بہت سا ڈھونڈا بت خانا
کچھ ایسا ہو کہ جس سے منزل مقصود کو پہنچوں
طریق پارسائی ہووے یا ہو راہ رندانا
یہ ساری آمد و شد ہے نفس کی آمد و شد پر
اسی تک آنا جانا ہے نہ پھر جانا نہ پھر آنا
ظفرؔ وہ زاہد بے درد کی ہو حق سے بہتر ہے
کرے گر رند درد دل سے ہاو ہوئے مستانا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |