نہ روح مذہب نہ قلب عارف نہ شاعرانہ زبان باقی

نہ روح مذہب نہ قلب عارف نہ شاعرانہ زبان باقی
by اکبر الہ آبادی
295382نہ روح مذہب نہ قلب عارف نہ شاعرانہ زبان باقیاکبر الہ آبادی

نہ روح مذہب نہ قلب عارف نہ شاعرانہ زبان باقی
زمیں ہماری بدل گئی ہے اگرچہ ہے آسمان باقی

شب گزشتہ کے ساز و ساماں کے اب کہاں ہیں نشان باقی
زبان شمع سحر پہ حسرت کی رہ گئی داستان باقی

جو ذکر آتا ہے آخرت کا تو آپ ہوتے ہیں صاف منکر
خدا کی نسبت بھی دیکھتا ہوں یقین رخصت گمان باقی

فضول ہے ان کی بد دماغی کہاں ہے فریاد اب لبوں پر
یہ وار پر وار اب عبث ہیں کہاں بدن میں ہے جان باقی

میں اپنے مٹنے کے غم میں نالاں ادھر زمانہ ہے شاد و خنداں
اشارہ کرتی ہے چشم دوراں جو آن باقی جہان باقی

اسی لیے رہ گئی ہیں آنکھیں کہ میرے مٹنے کا رنگ دیکھیں
سنوں وہ باتیں جو ہوش اڑائیں اسی لیے ہیں یہ کان باقی

تعجب آتا ہے طفل دل پر کہ ہو گیا مست نظم اکبرؔ
ابھی مڈل پاس تک نہیں ہے بہت سے ہیں امتحان باقی


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.