نہ سمجھو تم کہ میں دیوانہ ویرانے میں رہتا ہوں

نہ سمجھو تم کہ میں دیوانہ ویرانے میں رہتا ہوں
by غلام علی ہمدانی مصحفی

نہ سمجھو تم کہ میں دیوانہ ویرانے میں رہتا ہوں
خیال روئے خوباں سے پری خانے میں رہتا ہوں

تماشا گاہ عالم کا تماشا مجھ سے مت پوچھو
کہ جوں آئینہ میں حیرت کے کاشانے میں رہتا ہوں

خم جوشان عشق بے محابا ہوں میں تب ہی تو
نہ شیشے میں ٹھہرتا ہوں نہ پیمانے میں رہتا ہوں

شریف کعبہ نت مجھ کو سلام شوق بھیجے ہے
میں کافر گرچہ ہندستاں کے بت خانے میں رہتا ہوں

مجھے اے مصحفیؔ ہے کام ہر دم ذکر خوباں سے
اسی خاطر تو میں مشغول افسانے میں رہتا ہوں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse