نہ سہی آپ ہمارے جو مقدر میں نہیں
نہ سہی آپ ہمارے جو مقدر میں نہیں
اب وہ پہلی سی تڑپ بھی دل مضطر میں نہیں
آپ کی بات کی وقعت نہیں اصلاً دل میں
آپ دم بھر میں تو ہاں کرتے ہیں دم بھر میں نہیں
مجھ کو باور تو جب آئے کہ کچھ امید بھی ہو
لکھ دیا خط میں وہ اس نے جو مقدر میں نہیں
میں نے پوچھا تھا کہو اور ستاؤ گے مجھے
منہ سے نکلی ہے ستم گر کے گھڑی بھر میں نہیں
آپ کیوں ذکر سے بیخودؔ کے خجل ہوتے ہیں
یہ تو وہ نام ہے جو آپ کے دفتر میں نہیں
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |