نہ غرض ننگ سے رکھتے ہیں نہ کچھ نام سے کام

نہ غرض ننگ سے رکھتے ہیں نہ کچھ نام سے کام
by حسرتؔ عظیم آبادی

نہ غرض ننگ سے رکھتے ہیں نہ کچھ نام سے کام
خواریٔ عشق میں اپنی ہے ہمیں کام سے کام

گل و گلزار کی ہم کو تو ہوا بھی نہ لگی
تھا سروکار قفس سے ہمیں اور دام سے کام

مت ہلاک اتنا کرو مجھ کو ملامت کر کر
نیک نامو تمہیں کیا مجھ سے ہے بد نام سے کام

محو ہوں اس کے قد و چشم کی کیفیت سے
مست کو جیسے رہے شیشے سے اور جام سے کام

دور میں سیم تنی کے تری اے آفت جاں
پختہ مغزوں کو رہے ہے ہوس خام سے کام

صرف اوقات کا ہے شغل مجھے عشق بتاں
غم آغاز نہیں مجھ کو نہ انجام سے کام

واہ وا اپنی خوشی سے جو مجھے دے دل دار
طالب بوسہ نہیں میں پہ ہے دشنام سے کام

جہاں پاؤں اسے دیکھوں نہیں کچھ مجھ کو لحاظ
میں ہوں سائل مجھے کیا وقت سے ہنگام سے کام

لطف خاص اس کے کا مخصوص جو ہو سو جانے
خاص کر ہے مجھے حسرتؔ کرم عام سے کام

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse